فتنہ پرورو! اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵ - گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

آج جب کہ پوری دنیا میں ایسا ماحول بنادیاگیا ہے کہ حق و انصاف کی بات کہنا جرم ہوگیا ہے تو وہ گروہ انسانیت سب سے زیادہ نشانہ پر رکھ لیاگیا ہے جو اس معاملہ میں زیادہ سرگرم رہتا ہے۔ آج کل ملت اسلامیہ دنیا بھر میں جس طرح آزمائشوں کی بھٹی میں تپائی جارہی ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔ اور ہر طلوع ہونے والا سورج اس سلسلہ وار ناول میں ظلم و ستم کی کوئی نئی کڑی جوڑ دیتاہے۔ اور وہاں وہاں سے بیچارہ آزمائے جارہے ہیں جہاں سے ان کا کوئی مطلب بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر تبت کی آزادی کی مہم چل رہی ہے تبت کی راجدھانی لہاسہ میں ہنگامہ ہوئے اور احتجاج ہوا۔ احتجاجی مارے بھی گئے اور زخمی بھی ہوئے۔ تبتی جو کہ اہنسا کے پجاری بنتے ہیں انھوں نے اپنی تکالیف کا بدلہ وہاں موجود ایک مسجد کو جلاکر لیا۔ الزام یہ ہے کہ یہاں زیادہ تعداد میں چینی، ہوئی، نسل کے مسلمان آباد ہیں اور وہ یہاں کاروبار پر قابض ہیں۔ اس لئے اُن کو تبتی لوگ اچھا نہیں سمجھتے اور انھوں نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار خانہ خدا کو خاکستر کرکے کیا۔ دوسری مثال ۳۰/ مارچ کی نیپال کے وراٹ نگر سے ہے۔ جہاں ”نیشنل ڈیفنس آرمی“ کے لوگوں نے مغرب کی نماز پڑھ کر نکل رہے مسلمانوں پر مسجد کے باہر بم پھینکا، جس حملہ میں ۲ نمازی شہید اور چھ زخمی ہوگئے۔ یہ نیشنل ڈیفنس آرمی ایک ہندو کانسٹبل جو ”پریورتن“ کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے بنائی ہے۔ اس میں ۱۲۰۰ تربیت یافتہ سپاہی بھرتی ہیں جو ہتھیار اور گولہ بارود سے مسلح ہیں۔ اس ہندو دہشت گرد تنظیم نے ۲۰۰۷/ کے شروع میں کئی دھماکہ کرکے اپنی حاضری درج کرائی تھی اس میں کاٹھ منڈو میں ماؤ نوازوں کا سخت حفاظتی انتظام والا آفس بھی شامل تھا۔ ہندو دہشت گرد تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ نیپال کو ہندو ریاست بنانا چاہتی ہے اُس کے مطابق ہمیں دنیا بھر کے ہندوؤں کی حمایت حاصل ہے۔ ہمارے افراد ہندوستان میں سرحدی اضلاع میں تربیت حاصل کرتے ہیں اور وہیں سے ہمارے لئے اسلحہ اور گولہ بارود بھی آتا ہے۔ اب ہم القاعدہ کے طرز پر خودکش حملوں کی تربیت کرچکے ہیں جن کی تعداد پانچ ہے اور وہ کہیں بھی کارروائی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ (ٹائمس آف انڈیا ، ۲۱/۶/۲۰۰۷/ بحوالہ I.A.N.S)

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے دونوں مذموم واقعات پر کوئی بھی نام نہاد ”دہشت گرد مخالف“ حمایتی مذمت کے دو لفظ نہیں کہہ سکا۔ ہمارے نام نہاد قومی میڈیا نے تو خبریں بغیر ڈکار کے ہی ہضم کردیں۔ ہاں انڈونیشیا، ملیشیا، بنگلہ دیش میں وہاں کے قوانین کے مطابق بھی کوئی ایکشن ہوجائے تو ہفتوں صفحات کے صفحات سیاہ ہوتے رہتے ہیں۔ مسلم دشمنی کا طوفان بپا کردیا جاتاہے۔ لہاسہ کی مسجد کو جلائے جانے اور وراٹ نگر نیپال کی مسجد پر بم حملہ میں پوری ”دہشت گردی مخالف“ لابی کی منافقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ کہ مسلمانوں پر جہاں جتنا ظلم توڑا جائے، ان کو بے عزت کیا جائے ان کے مذہبی شعائر کو تباہ و برباد کیا جائے مگر دنیا کے امن و امان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے تو پھر رد عمل کے زہر آلود نام سے ہر حرمت حلال ہوجاتی ہے۔

”فتنہ“ نام کی فلم کا ایک آزاد ملک کے رکن پارلیمنٹ کے ذریعہ بنایا جانا اور تقسیم کیا جانا اور اس پرحکومت نیدرلینڈ کا یہ شرانگیز اور نفرت انگیز بیان کہ ”ہمارے یہاں عوام کو تحریر و بیان کی جوآزادی حاصل ہے ہم اس کی حفاظت کریں گے، ہالینڈ کی حکومت اس فلم کی حمایت نہیں کرتی مگر وہ آزادی اظہار کی حمایت کو یقینی بنائے گی اور مسلم ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ رد عمل کے طور پر تشدد کو نہ بھڑکنے دیں“۔ یہ ہے وہ زخم پرنمک پاشی کرتا ہوا سرکاری بیان جو کہ فسادی کو فساد پھیلانے کا پورا حق دیتا ہے، کیونکہ ظاہر بات ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں وہ کسی بھی دین کے خلاف گالم گلوچ سے بحکم خداوندتعالیٰ روک دئے گئے ہیں۔ ہاں ”فتنہ“ کا جو اسٹائل ہے اس کا جواب دیا جانا اس لئے ضروری ہے کہ وہ عوام جو متعصّب نہیں ہیں اور پڑھے لکھے مسلم خواص کم سے کم حقیقت جان لیں اور اسلام کے خلاف اس مکروہ اور شیطانی سازش کے تسلسل کی حقیقت سمجھ لیں کہ جو نام نہاد مسائل یہ اٹھارہے ہیں ان کو نظریاتی اور عملی و تاریخی طورپر اسلام سے بہتر کسی نے نہیں حل کیا۔ عقیدہ کی آزادی، بین الاقوامی تعلقات، غیرعقیدہ والوں سے رویہ، خواتین کا سماج میں مقام اور ان کی ذمہ داری، انسانی جان کی حرمت اور عزت، سماجی انصاف کے تمام پہلوؤں پر اگر تقابلی مطالعہ دیانت دارانہ طور سے پیش کردیا جائے اور اسلام کے چاند پر تھوکنے والوں کو نظری اور تاریخی طور پر ان کی اوقات بتادی جائے تو یہ ”فتنہ“ بھی خیر کا باعث ہوسکتا ہے۔ نام نہاد مسلم حکمرانوں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ بیچارے ایمان فروشی اور ضمیر فروشی کی ہر حد کو پار کرچکے ہیں اور یوں بھی زمانہٴ تنزل میں قوم کی قیادت میں ہی سب سے زیادہ بگاڑ آتا ہے جس میں ضمیر فروش علماء بھی شامل ہیں۔ مگر مخلصین اور مومنین کو یلیت قومی یعلمون ”کاش کہ میری قوم جانتی“ اور طائف کے دردناک تجربہ کے بعد فرشتوں کی عذاب کی پیشکش کے جواب میں رحمة للعالمین … کے تاریخی جواب ”شاید کہ ان کی نسلوں میں اہل حق پیدا ہوں“ کے تحت حق کو پہنچانے اور دلائل کے ذریعہ اظہارِ دین کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ہر مسلمان کی اُس کی وسعت کی حدتک اولین ذمہ داری ہے۔ صرف مغرب کے غلام مسلم حکمرانوں اور علماء و اہل ثروت کی تنقید کرکے بیٹھ رہنے سے ہی نبی … کے امّتی ہونے کی اور خیرامت ہونے کی ذمہ داری ادا نہیں ہوگی۔

مغرب اس کے زرخرید ایجنٹوں اور مشرق میں اُس کے فرقہ پرست ہمنواؤں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جن کے گھر خود شیشہ کے ہوں وہ دوسروں کے گھر پر پتھر نہیں پھینکا کرتے“ جس طرح کی خباثت کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیمات اوراحکامات کو من مرضی طریقہ سے دکھاکر اس پر من چاہی تصاویر اور کہانیاں فٹ کی گئی ہیں اگراسی طریقہ پر مغرب اوراس کے غلام ہمنواؤں کا تعاقب و جائزہ لیا جائے تو اپنی اوقات سمجھ میں آجائے گی مگر دنیا کا ماحول بہت خراب ہوجائیگا۔

رومن- یونانی تہذیب میں عورتوں بلکہ عام انسانوں کی کیاحیثیت تھی؟ رومن تہذیب جو مغربی تہذیب کی ماں ہے اس میں طبقہٴ امراء اور غلام باقاعدہ موجود تھے یا نہیں؟ یہ طبقہ امراء اپنی تفریح کے لئے بڑے بڑے اکھاڑوں میں آدمی آدمی کے مقابلہ کراتے تھے یہاں تک کہ دونوں میں سے ایک مرجائے۔ آدمیوں اور جانوروں بلکہ درندوں کے مقابلہ ہوتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ عورتوں سے ایک دوسرے کی بیویوں سے بڑی تعداد میں تعلق رکھنا شرافت اور طبقہ امراء کی نشانی تھا۔ کیا انہیں استحصال اور انسانیت سوز کارناموں کا تسلسل آج کے مغرب نے نوآبادیاتی سماج میں نہیں جاری رکھا۔

جب اِن ظالم انگریز، ڈچ، پرتگالی، فرانسیسی،اطالوی سامراجیوں نے انسانوں کو افریقہ، بھارت سے پانی کے جہازوں میں جانوروں کی طرح بھربھر کر اپنی نوآبادیات میں نہیں لیجایا گیا۔ وہاں پر ان کی نسل کے بعد نسل کو بندھوا مزدور بناکر رکھا گیا اورانہیں جان بچائے رکھنے کی حد تک عذاء دی گئی۔ ان پر ہر طرح کے مظالم کئے گئے۔ ان ظالم یورپی اقوام نے امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جاکر وہاں کے مقامی ریڈ انڈین کو مار مار کر ختم کردیا یا دور دراز جنگلوں میں روپوش ہونے پرمجبور کردیا۔ ان کے سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک سیکسپئر نے عورتوں کے بارے میں وہ مشہور ہتک آمیز حملہ کیا جس کا مطلب ہے ”عورت تو سراپا کمزوری ہے“ (Women the name is frailty) اسی مغربی تہذیب کے نمونہ نے یہودیوں کے لئے اپنی مخصوص جانبداری اور تعصب ونفرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور ناول ”وینس کا سوداگر“ میں شائیلاک کے کردار کے ذریعہ یہودیوں کو نفرت وملامت کا نشانہ بنایا۔ ۱۹ ویں صدی کے آغاز تک بھی یورپ میں عورتوں کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ خصوصاً وراثت اور نکاح و طلاق میں اور طلاق کا حق تو یوروپ میں اور بھی بعد میں عورت کو ملا۔ جب کہ اسلام میں نبی رحمت صلى الله عليه وسلم ڈیڑھ ہزار سال پہلے یہ تمام حقوق عورتوں کو عطا فرماچکے تھے۔

سائنس اور تحقیق کے نام سے تو ڈچ پارلیمنٹ کے آبا واجداد کو ضد تھی۔کلیسا کے جھوٹے خیالات کے خلاف آواز اٹھانے کی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا۔ ۱۴۸۱-۱۸۰۸ کے درمیان ان تفتیشی عدالتوں (Inquisition) نے تین لاکھ چالیس ہزار لوگوں کو سزائیں دیں۔ جن میں سے دو لاکھ زندہ جلائے گئے۔ بریقالٹ نے اپنی کتاب ”اسلام و عیسائیت - سائنس اور تہذیب کے ساتھ“ میں لکھتا ہے کہ ”تاریخ دانوں کا قیاس ہے کہ یوروپ میں اپنے تبلیغی مرحلہ میں عیسائیت نے ستر لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ تک انسانوں کا قتل کیا۔ جبکہ اس وقت یوروپ کی آبادی بہت کم تھی۔ یوروپ کی کیتھولک مہارانی میری (Marry) نے اعلان کیا ”چونکہ کافروں کی روحیں جہنم میں ہمیشہ جلیں گی اسلئے خدائی عذاب کی تقلید کرتے ہوئے زمین پر بھی جلاڈالنے سے اچھا اورکوئی کام نہیں ہوسکتا“۔

عیسائیوں نے اسپین میں ابن رشد کے فلسفہ سے متاثر یہودیوں اور مسلمانوں کو یکطرفہ ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے ملک سے اس حالت میں نکلنے کاحکم دیا کہ معمولی سامان ساتھ لیجاسکتے ہیں مگر سونا چاندی نہیں اور مسلمانوں کے ساتھ یہ شرط لگائی کہ وہ اس راستہ پر نہ جائیں جو مسلم ممالک کو جاتا ہے۔

وائلڈرس (ڈچ سیاست داں) کو شید معلوم ہو کہ ۱۳۲۵ میں نیقیہ کے مشہور مذہبی تقریب کے موقع پر مصری عیسائی عالم آریوس کے ساتھ کتنا پرانگیز سلوک کیاگیا۔ کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ  عليه السلام کے الوہیت کے قائل نہیں تھے۔ اس کو پھانسی دی گئی ان کے ماننے والوں کو بھی پھانسیاں دی گئیں۔ مارٹن لوتھر نے جب یوروپ میں پروٹسٹنٹ کلیسا کی بنیاد رکھی تو کیتھولک کلیسا نے پوری طاقت سے اس کی مخالفت کی اور غیرمعمولی خون خرابہ ہوا۔ ۲۴/اگست ۱۵۷۲/ کو پیرس میں کیتھولک عیسائیوں نے پروٹسٹنٹ علماء کو دعوت دی کہ آپسی اختلاف کو مٹایا جائے گا۔ جب پروٹسٹنٹ آگئے تو رات کے اندھیرے میں ان سب کو ہلاک کردیاگیا اور صبح پروٹسٹنٹ علماء کے خون سے پیرس کی سڑکیں لال تھیں۔ اس وقت کے پوپ نے چارلس نہم کو اس عظیم کارنامہ پر مبارکباد دی اور تمام کیتھولک عیسائیوں نے اور حکمرانوں نے اسے مبارک باد دی۔ مگر جب پروٹسٹنٹ حاوی ہوئے تو انھوں نے بھی ایسے ہی بدلہ لیا اور لوتھر نے حکم دیا کہ کھلے یا خفیہ جتنے کیتھولک قتل کرسکتے ہو قتل کرو۔ یہ داستان بہت طویل ہے اور مہیب اور خون آشام بھی ہے۔ وائلڈرس کو جنگ عظیم اول و دوئم میں مارے گئے کروڑوں انسانوں، بچوں، عورتوں کی تصاویر نہیں ملیں۔ ناگاساکی اور ہیروشیما پر عیسائی امریکیوں کے ذریعہ کی گئی جہنمی تابکاری میں گلے ہوئے انسان مرد، عورتوں و بچوں کی بھیانک تصاویر نہیں ملیں، بوسنیا میں وائلڈرس کے ہم مذہب درندوں کی شکار بوسنیائی مسلم عورتوں کی تصاویر نہیں ملیں جن کی مصدقہ تعداد ۵۰ ہزار سے اوپر ہے؟ ویتنام میں ان لاکھوں بے باپ کے بچوں کی تصاویر نہیں ملیں جو وائلڈرس کے ہم مذہب امریکیوں کی زناکاری کے طفیل ایک بالکل نئی نسل کے طور پر تیار ہوئی؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ دنیا میں ہوائی جہاز کا پہلا اغواء امریکیوں کی مدد سے کیوبا کے خلاف کرایا گیا اوراس کا مجرم آج بھی امریکہ میں ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ حال کی تاریخ کا پہلا خودکش حملہ آور ہندو تمل تھا؟ کیا حقیقت نہیں کہ ”مقدس جنگ“ کا بگل ۱۵۹۵/ میں پوپ اربن دوم نے بجایا تھا اوراس میں حصہ لینے والے تمام شرکاء کے تمام گناہ معاف کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ غرضیکہ لسٹ بہت لمبی ہے اور وائلڈرس اور دنیا بھر میں اُس کے حمایتی ان مظالم کی کوئی توجیہ نہیں پیش کرسکتے۔ دنیا کے تمام اسلام مخالفین کو خود سوچنا چاہئے کہ ان کے تمام منفی پروپیگنڈہ کے باوجود آج خود یوروپ میں لوگ کیوں مسلمان ہورہے ہیں خصوصاً ہالینڈ میں عورتیں کیوں اسلام قبول کررہی ہیں۔ اسلام نے عورت اور مرد کی حیثیت کے بارے میں اتنی خوبصورت بات کہی ہے کہ جس کا سوچ سکنا بھی ناممکن ہے ”وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو“ (قرآن) اور پھر یوروپ کی طرح اسلام نے عورت کے نشیب و فراز پیچ و خم کی پیمائشوں سے اس کی قیمت نہیں لگائی بلکہ اس کے تقویٰ اور علم کی بنا پر لگائی ہے۔ اور اگر اسلام عقیدہ کی آزادی نہ دیتا تو ہر مسلم ملک میں بڑی تعداد میں عیسائی نہ موجود ہوتے۔

____________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 5‏، جلد: 92 ‏، جمادی الاولی 1429 ہجری مطابق مئی 2008ء